احوال کی اطلاع سے اصلاح جلد ممکن : خط دل کی کہانیاں ہوتی ہیں ۔ میرے اورآپ کے سامنے بیٹھ کر کوئی بندہ بعض اوقات کوئی بات نہیں کہہ پاتا ‘موبائل پہ بھی نہیں کہہ پاتا‘ خط ایک ایساذریعہ ہے جس کو وہ تنہائی میں بیٹھ کر لکھ رہا ہوتاہے۔ اپنے دل کے درد اور اپنے دل کی کہانیاں ‘ اپنے دل کے غم ‘ اپنے دل کی آہ وزاریاں‘اپنے دل کی حسرتیں وہ بیٹھا بیان کررہا ہوتا ہے۔ اس لیے حالات بتانے میں خط زیادہ نفع دیتے ہیں ۔خوش قسمت انسان وہ ہے جو اپنے احوال بتاتاہے۔جیسے بھی اچھے برے حالات ہیں ان کا تذکرہ کردیتاہے ۔ آج کل یہ احوال لکھے جاتے ہیں کہ: مجھے فلاں خواب آیا ‘فلاں کشف ہوا‘یہ چیز ہوئی‘جو چیز نہیں ہورہی اسکو زیادہ بیان نہیںکرتے ہیں۔جہاں خامی ہے‘ جہاں غلطی ہے ‘جہاں نقص ہے ‘اسکو بیان کرنا اسکو لکھنا ضروری ہے ۔غلطی ہوگی تو اصلاح ہوگی۔خط والے صاحب کہنے لگے کہ: مجھے اللہ پاک کی ذات پر اب بھی یقین ہے ۔ ان حالات کے بعدبھی کہ غربت‘فقروفاقہ‘تنگ دستی ہے اورہر چیز میری ختم ہوگئی ہے۔ مگراللہ پر یقین ہے اور طبیعت میں سکون ہے یہ جنتی ہونے کی علامت ہے۔ جو ایوب علیہ سلام کا رب ہے وہ تیرا میرا بھی رب ہے:اللہ جل شانہٗ نے جس حال میں حضرت ایوب علیہ السلام کو رکھا ہے۔اللہ اکبر۔۔۔!پورا جسم بیماری سے بھر گیا ‘گل گیا ۔ ایک صاحب مجھ سے کہنے لگے کہ: مجھ پر تکلیف آئی اور اس تکلیف میںایسی شدت تھی کہ اچانک میرا حادثہ ہوا ۔پھرمیں نے اللہ سے عرض کیا کہ:اے اللہ! تو ایوب علیہ السلام کا رب ہے کیا میرانہیںہے؟ اُن کو تو دن میں دودفعہ پوچھتا تھا مجھے تونے پوچھا ہی نہیں ہے؟ اللہ اکبر! یا اللہ تجھ سے دوستی چاہتے ہیں۔تجھ سے محبت بھی چاہتے ہیں۔لیکن دوستی اور محبت کا پتہ نہیں ہے کہ کیسے کرنی ہے۔وہ صاحب کہنے لگے پھر اللہ نے میرے ساتھ ایسا معاملہ کیاکہ حضورپاکﷺ کی برکت سے مجھ سے اللہ نے دن میں تین دفعہ پوچھا کہ:’’کیا حال ہے تیرا‘‘اس شخص کا درجہ نبی سے نہیں بڑھ گیا۔کہیںایسا نہ سمجھ بیٹھنا۔کیونکہ ساری کائنات کے شخص محنت کرکے نبی نہیں بن سکتے ‘ولائیت پاکر بھی نبی نہیں بن سکتے کہیں یہ مغالطہ نہ ہو جائے ۔یہ ہوتی ہے رضا بالقضاء ۔ اگر اللہ پاک تو اس حال میں مجھ سے راضی ہے تومیںبھی مطمئن ہوں۔رضا بالقضاء: خیرپورٹامیوالی میں باپ اور دوبیٹے دیوار بنارہے تھے۔اچانک دیواران پر گری ۔ان کوفوراً ایمرجنسی میں لے گئے ۔ بڑا بیٹابہت زخمی تھا اس کا مثانہ سارا پھٹ گیاتھاچونکہ دیوار اوپر گر گئی تھی اور چھوٹا بیٹا بھی بہت زخمی تھا اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی تھی۔ میں ان کے پاس ہی کھڑاتھا۔ اس جوان نے آخری ہچکی لی بائیس تئیس سال کا وہ جوان تھاجو واصل بحق ہوگیا ۔ میںنے اس کے ہاتھ پاؤں سیدھے کیے۔اسکی ٹھوڑی اور انگوٹھے باندھ دیئے ۔ان کا والد میرے پاس آیا۔ مجھے وہ نقشہ کبھی نہ بھولے گا موت ہی اس نقشے کو بھلاسکے گی ۔میں نے ان سے کہا کہ:’’ آپ کابیٹا فوت ہوگیا۔ ‘‘کہنے لگے اچھا ؟ ٹھیک ہے۔’’ جس کی امانت تھی اُس نے لے لی ۔‘‘بڑے مطمئن لہجے میںکہا۔ جوان کڑیل بیٹے کی لاش سامنے پڑی ہوئی ہےاور باپ کہہ رہاہے کہ:’’ جس کی امانت تھی اُس نے لے لی۔‘‘بس!یہ لفظ اُس نے کہے تو مجھ پر سناٹا ساطاری ہوگیا۔ میں ایک پل کے اندر یوں سُن ہوگیا۔الٰہی یہ کیسا نفس مطمئنہ ہے ؟اللہ سے دوستی کا راز: صرف دو لفظ ہیںایک لوگوں کو معاف کرو اور دوسرا اپنے آپ کو معاف کرو۔ اور اپنے آپ کو معاف کرنا یہ ہے کہ اللہ جل شانہٗ نے دنیا کے اعتبار سے جس حیثیت میں رکھاہے اس سے رب سے شکوہ نہ کر‘ مخلوق سے شکوہ نہ کر‘ تیرے ذمے کوشش ہے جائزطریقے سے تو کرتا رہ۔اگر باوجود کوشش کے تیرار ب تجھے زیادہ مال نہیں دے رہا‘ زیادہ وُسعت نہیں دے رہا ‘زیادہ بڑاگھر نہیں دے رہا‘ زیادہ نعمتیں نہیں دے رہا‘زیادہ چیزیں نہیں دے رہاپھر مطمئن ہوجاکہ میرا رب اسی پر راضی ہےاورکہہ الحمدللہ! اے اللہ اگرتو ایسے حالات پر راضی ہے تو پھر میں بھی اسی پر راضی ہوں۔میں بھی تجھ سے راضی ہوںتو مجھ سے راضی ہوجا۔ یہ اللہ کے دوستوں کی علامت ہے ۔
روزانہ احوال کا جائزہ لیں اور توبہ کریں:اپنے راستے دیکھیں کہ ہم نے جو راستے اختیار کیے ہیں وہ کونسے ہیں؟جائز ہیں ،توٹھیک ہیں ،نافرمانی تو نہیں،حرام کے راستے تو نہیںہیں۔ یہ زندگی کی خوشحالی کا رازپیش کررہا ہوںایسا شخص بہت اچھی موت‘ بہت بہترین موت ‘اور بہت لاجواب موت لے کر مرے گا۔ مر جانا ہمارے مقدر کا حصہ ہے لیکن بہترین انسان وہ ہے جو توبہ کے ساتھ مرے اور بہترین انسان وہ ہے جس کی صبح توبہ کے ساتھ ہواور رات کو اس دنیا سے ایسے رخصت ہو کہ بس اللہ کے ساتھ اپنا معاملہ برابر کرکے سوئے اور جن کے حقوق دینے ہیں ان کے حقوق ادا کرنے کا سو فیصد جذبہ ہو۔گناہ پر ندامت دراصل توبہ ہی ہے:بعض کتابوں میں یہ بات لکھی ہے کہ جس شخص نے ننانوے قتل کیے تھے دراصل وہ یہ پوچھنے جارہا تھا کہ میں اس کا مداوا کیسے کروں؟ اُن لوگوں کے گھر میں کیسے پورے کروں جن گھروں کے چراغ میں نے گل کردیئے؟ اتنا بڑا قاتل لیکن فکردامن گیرکہ میں اُن کے گھر والوں کے ساتھ کیسے معاملہ کروں۔اُن کے ورثاء کو میں کیسے مناؤں کیسے معافی کراؤں؟ اس شخص کی چاہت یہی تھی کہ اگربندے سے معافی ملے گی تو اللہ سے بھی ملے گی۔وہ حقوق انسانیت جانتاتھا لیکن اُس کو موقعہ نہ مل سکا وہ اپنی عادت کی وجہ سے قتل کر بیٹھا۔ لیکن اس شخص پر ایک جذبہ غالب تھااور وہ جذبہ یہ تھا کہ میں نے اب توبہ کرنی ہے۔ میں نے اب ندامت کی زندگی گزارنی ہے ۔میں نے اب توبہ کی زندگی گزارنی ہے۔میں نے اب اللہ پاک سے اپنا معاملہ ٹھیک کرناہے بہت گناہ کر بیٹھا ہوں۔(جاری ہے)
جس شخص کے اندر ندامت کا جذبہ ہو گاکہ میں نے اللہ پاک کو راضی کرناہے ، جن لوگوں کے حقوق میرے ذمے ہیں وہ ادا کرنے ہیں اور اسی جذبہ کو پورا کرنے میں لگ جائے اور اسی فکر میں اگر موت بھی آگئی تو اللہ جل شانہُ اس کی نیکیاں کم نہیں کریں گے اور جن کے حقوق تھے وہ اللہ اپنے خزانے سے عطا فرمادیں گے ۔ان کا گھر پوراکردیں گے۔
حقوق العباداللہ خود پورے کردینگے!!
جب کوئی شخص اللہ کی محبت‘ اللہ کے تعلق اور اللہ کے بندوں کواللہ کی محبت میں لگانے کیلئے مارامارا پھرتاہے ۔گھر والے، رشتے دار،ماں باپ،بیوی بچے اس کی جدائیا ں برداشت کرتے ہیں۔ایسا بندہ قیامت کے دن جب رب کے حضور جائیگا سارے عزیزواقارب،والدین،بچے جنہوں نے جدائیاںبرداشت کی تھیںاکٹھے ہوکراللہ کے حضور آجائیںگے اور کہیں گے کہ: ’’یا اللہ ہمارا حق ہمیںملنا چاہیے چونکہ یہ عدل کا دن ہے۔‘‘ اللہ جل شانہُ ان سب کو سامنے کھڑا کریں گے کہ ان کا حق ادا کرو۔ پھر اللہ پاک خود فرمائیں گے( مفہوم ہے)یہ میری محبت میں اور میری مخلوق کی محبت میں مارامارا پھرتاتھا۔ اس سے حق پا کر تمہیں جنت چاہیے ؟ اگرمیں اس سے حساب لیتاہوںتو یہ جہنم میں جاتاہے لیکن چونکہ مارامارا پھراہی میری محبت میںتھا اسلیے میں تم سب کو اس کی وجہ سے جنت دے دیتاہوں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں